'22 December 1939' |
درسِ اتّحاد
|
الطاف کانگریس کے جبتک یہاں رہے ہر قوم پر روا ستمِ آسماں رہے |
انجامِ اقتدار ہے، آنکھوں کے سامنے اب ابتدائے ظلم کے بانی کہاں رہے |
ہاںرہروانِ ملک میں جزگاندھی و پٹیل شاید ہی اب کوئی ہدفِ کارواں رہے |
امبیڈکر بھی ہمدمِ نظمِ وطن ہیں آج وہ بھی سنیں جو لیگ سے دامن کشاں رہے |
بولے تھے چند لفظ تو بولےؔ نے جوش میں مخفی یہ اب حقیقت کبریٰ کہاں رہے |
سیتلواڈ اور تیج بہادر نے یہ کہا یوں مبتلائے جنگ نہ ہندوستاں رہے |
ناقوسِ برہمن بھی سنیں اہلِ بتکدہ لازم ہے مسجدوں میں بھی شورِ اذاں رہے |
یہ اختیار قائداعظم کا دیکھنا ہر طول وعرضِ ہند میں وحدت عیاں رہے |
گھیرے ہوئے ہیں اہلِ وطن یوں جناح کو تاروں میں جیسے ماہِ فلک ضوُ فشِاں رہے |
یہ معترض سیاستِ رخشندہ دیکھ لیں ان کا ہر اک حریف بھی ہمداستاں رہے |
اقوام میں بُلند رہے سرسکندر آج افکارِ فضلِ حق بھی بہت کامراں رہے |
خود لیگ کا نظام ہے مرہونِ چندریگر یہ بھی رہینِ خدمتِ پیروجواں رہے |
یومِ نجات و شکر کے خادم ہوں سُرخرُو ان اک ثباتِ عزم وفا جاوداں رہے |
مذہب سکھا رہا ہے ہمیں درسِ اتّحاد کیوں حُسن فضلِ اہلِ خرد رائگاں رہے |
افسوس ہے نگاہِ زعیمانِ عصر پر پوشیدہ یوں مُصوّرؔ وحدت یہاں رہے |
تاریخی شاعری میں خوش آمدید
Monday, April 20, 2009
د ر س اتحاد
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment