'16 December 1939' | |
سازِ قومیت اور تفریق | |
سازِ قومیت میں پھر تفریق کا انداز ہے کانگریسی ذہنیت پھر درخورِ آغاز ہے | |
لکھ رکھیں یہ قول لوحِ دل پہ گاندھی و پٹیل اتِّباعِ دینِ احمد میں بقا کاراز ہے | |
راج گوپال اور نہرو کا گھمنڈ اچھا نہیں ان کی ملّت ہی مآل کارِ وحدت ساز ہے | |
ہیں خلاف اسلام کےساورکر و مونجے تو کیا ہاں یہ گونجیگی ضمیرِ قدس کی آوا زہے | |
معترض دیکھیں یہ معیار جناح نکتہ ور انتہا جس کی سیاسیات کا آغاز ہے | |
اب فضاؤں میں صدائے اکثریت کچھ نہیں اب اقلیت کے نغموں کا جہاں دمساز ہے | |
رہروِ باطل یہاں ہے مائل تحت الثریٰ عازم میدانِ حق پھر محرم پرداز ہے | |
اسقدر مطعون کیوں ہے عاملِ یومِ نجات کچھ نظر اس پر بھی ہو کیا ظلم کا انداز ہے | |
مقصد زٹلینؔڈ ظاہر ہوگیا آفاق پر یعنی وہ بھی عدوان ملّت پر باز ہے | |
ہند بھی ترا وطن ہے اے امینِ حُرّیت تو کہ مختارِ حجاز و کابل و شیراز ہے | |
ہر طرح ترکان مشرق ہیں تری تائید پر یہ غلط ہے کوئی مغرب میں ترا غمّاز ہے | |
تجھ سے پوشیدہ رہے کیوں جلوۂ حسنِ حرم تو نگاہِ پاسبانِ دَیر میں ممتاز ہے | |
تری نظروں میں ہے تصویرِ مراعات وطن ہاں یہ نصب العین تیرا قابلِ اعزاز ہے | |
یہ رفعت کی شعاعیں اور افرنگی دیار اشراکیت کے مسلک پر کسے اب ناز ہے | |
عکسِ ناقص ہے ترا نازیت و فسطایت یہ بھی تیرے مذہبِ فطرت کا اک اعجاز ہے | |
ترے ان سجدوں پہ صدقے رفعتیں کونین کی سرنگوں ہوکر بھی تو عالم میں سرافراز ہے | |
پونچھ لے آنکھوں سے تو اشکِ ندامت پونچھ لے تری خاطر ہے ابتک بابِ رحمت باز ہے | |
اب نظامِ جبر بچ جائے یہ ممکن ہی نہیں خود مشیّت قوس کے مرکز سے تیرانداز ہے |
تاریخی شاعری میں خوش آمدید
Sunday, April 19, 2009
ساز قومیت اور تفریق
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment