Justuju Tv جستجو ٹی وی


تاریخی شاعری میں خوش آمدید

Monday, April 6, 2009

مولانا مصور کی قومی اور پَیامی شاعری

عرض ایڈیٹر / پبلشر ... The Poetic Chronicles of Musavvir

محترم جناب مولانا محمد ابوبکر مصور مرحوم کے کلام کا ایک بڑا حصّہ قومی، سیاسی اور دینی افکارسے بھرپور ہے۔ مولانا کا کلام  جو آپ اس ملٹی میڈیا ویب کتاب کے اس حصہ میں پڑھ رہے ہیں اسے  تاریخی شاعری کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ عمومی طور پر ایسی نظموں میں قارئین کے لیے براہ راست پیغام موجود ہے، جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق ہے۔ مثلاّ 1937کے اس دور میں جاپانیوں نے چین پر حملہ کرکے اس کے کئی بڑے شہروں پر قبضہ کرلیا تھا، اور یورپ میں اٹلی اور اسپین کے درمیان ایک خانہ جنگی جاری تھی۔ دوسری جانب جرمنی میں ہٹلر، اور اٹلی میں مسولینی ایک نئی قوم پرستی کا الائو جلارہے تھے، جس نے بعد میں دنیا کو دوسری جنگ عظیم کی لپیٹ میں لے لیا۔ جب کہ امریکہ ایک پرامن دور میں جی رہا تھا، اور جدید سائنسی پیش قدمیاں جاری تھیں۔ لگ بھگ اسی دور میں برطانیہ میں چرچل ہٹلر کے خطرہ کے بارے میں واویلا مچا رہا تھا، اور دوسری جانب بنیاد پرست یہودیوں کی صیہونی تحریک کی مدد کررہا تھا۔

اُنّیسویں صدی کے آخر تک روسی وسطی مسلمان ریاستوں پر قابض ہوچکے تھے، اور مسلمانوں کو معاشی بدحالی اور اسلام ترک کردینے کے دبائو کا سامنا تھا۔ دوسری جانب سنکیانگ کے یوغیر مسلمان روسی اور چینی تسلّط کی کشمکش میں پھنسے اپنی شناخت برقرار کرنے کی جدّوجہد میں مصروف تھے، اور بالآخر قیامِ پاکستان سے پہلے ہی مکمّل طور پر چینی حکومت کے زیرِنگیں آگئے۔

برطانیہ نے اپنے جاسوس لارنس آف عربیہ کی سرکردگی میں عرب قومیت پرستی کی جو آگ جلائی تھی، وہ عربستان کے برستی آگ کے صحرائوں میں خوب شعلے بھڑکا رہی تھی، یہاں تک کہ سعودی عرب کا قیام عمل میں آگیا۔ ترکی کی خلافت کے تصور کو برصغیر کے مسلمان حرز جاں بنائے ہوئے تھے، جب کہ سلطان مہمت کی سلطنت غروب ہوکر مصطفیٰ کمال اتاترک کے ہاتھوں میں جاکر، 625 برسوں سے حکومت کرنے والا شاہی خاندان دربدرہوچکا تھا۔ اس سے کئی برس پہلے اٹلی ترکی کو شکست دے کر لیبیا پر قبضہ کرچکا تھا۔ اس دوران مولانا محمد ابوبکر مصور کے آبائی شہر بمبئی ہی میں 1919 میں تحریک خلافت کی بنیاد ڈالی گئی، جو کہ بین الاقوامی سطح پر ناکام رہی۔



ترکی سلطان مہمت (محمد) سادس، مسلمانوں کے سوویں اور آخری خلیفہ 

 بد قسمتی سے برطانوی راج کی وجہ سے برصغیر میں سائنسی ترقِّی کے بجائے مقامی کشمکشیں اور سیاسی جھگڑے، اور برطانوی لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی کا شکار عوام بے بسی سے جی رہے تھے۔ ہندو مسلم کشمکش اپنے عروج پر تھی، اور انڈین کانگریس ایک طاقتور ترین کردار کے طور پر ابھر چکی تھی۔ گجراتی دیانند سراسواتی کی شدھی تحریک بھی برصغیر میں خاصی اتھل پتھل کرچکی تھی۔  بہر حال چند رہنما اور ادیب و شعراء اس وقت مستقبل کی پیش بینی کرتے اور عوام کو جگاتے نظر آتے تھے، ۔۔


، جیسے کہ علامہ اقبال، قائد اعظم، گاندھی، جوش ملیح آبادی (شاعر انقلاب) وغیرہ۔ معلومات کے ذرائع محدود تھے، اور ریڈیو ہی ایک بڑا ذریعہ تھا۔ اخبارات کی خبریں بھی برصغیر کے کونہ کونہ تک نہیں پہنچ سکتی تھیں، اور نہ ہی اس وقت تعلیم کا عوامی چلن زیادہ تھا، جیسا کہ آج برصغیر میں ہے۔ 

اس تاریخی پس منظر میں مولانا مصور کی اس قسم کی شاعری کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔  

******

 اس مضمون کو "اردو آرٹیکلز" کے خزانہِ میں یہاں دیکھا جاسکتا ہے:۔

http://www.urduarticles.com/articles/مولانا-مصور-کی-قومی-اور-پَیامی-شاعری-کا-پس-منظر




No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click: More Justuju Projects