| '4 September 1938' |
|
دیکھو! ۔۔۔
|
| سلف کا از سرِ نو اقتدار تو دیکھو نظامِ دہر کو پھر استوار تو دیکھو
|
| بنائے عشرتِ جاوید پڑگئی آخر مآل سلسلۂ ناگوار تو دیکھو
|
| ظلامِ شام کو دم بھر میں کردیا مخفی یہ جلوۂ سحرِ آشکار تو دیکھو
|
| نجوم کو بھی ہے حاصل فلک پہ آزادی یہ جذبِ کیفیتِ رستگار تو دیکھو
|
| ہر ایک ذرّے میں آہنگ ساز ہے پیدا فسونِ نغمۂ بے اختیار تو دیکھو
|
| ہر ایک گل نظر آتا ہے محرمِ وحدت ذرا عروسِ چمن کا نکھار تو دیکھو
|
| ہیں جابرانِ جہاں کے لیے پیامِ اجل نئی روشنی کے یہ لیل و نہار تو دیکھو
|
| نظام جبر کی دنیا میں انقلاب آیا یہ احتجاجِ دلِ بے قرار تو دیکھو
|
| کثیر پر بھی ہے ممکن قلیل کا غلبہ حُنین و بدر کے تم کارزار تو دیکھو
|
| زمانِ حال کی شورش سے ہوکے بالا تر فضائے شرق کی پھر کامگار تو دیکھو
|
| رہینِ شرق ہوئی ان کی شانِ خود داری جہانِ غرب کے پروردگار تو دیکھو
|
| کیا ہے جس نے دلِ کائنات کو پُر سوز گُداز قلبِ اطاعت گزار تو دیکھو
|
| ہیں محوِ ارض حرم ہٹلر و مسولینی تصرّف نگۂ کیف بار تو دیکھو
|
| جہانِ کفر کی دیکھیں گی انتہا آنکھیں مگر یہ حوصلہء انتظار تو دیکھو
|
| ریاضِ دہر میں آئینہ دار وحدت ہے دلِ مُصوّر وحدت نگار تو دیکھو |
تاریخی شاعری میں خوش آمدید
Saturday, April 18, 2009
دیکھو! ۔۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment