Justuju Tv جستجو ٹی وی


تاریخی شاعری میں خوش آمدید

Monday, April 6, 2009

احساسِ بقا




تاریخی شاعری
Poetic Chronicles

03/09/37

DDMMYY

 ۔۔3 ستمبر 1937

احساسِ بقا


احساسِ بقا تجکو نہیں ساکن مشرق

مغرب سے اگر رسم حریفانہ نہیں ہے


ناداں ہے گوارا تجھے کیوں تاج غلامی

کیا واقف اسرار ملوکانہ نہیں ہے


آزاد ہو آزاد ہو، اے حامیء ملّت

مقبولِ جہاں، وضع غلامانہ نہیں ہے


ہاں جس میں پراگندہ ہے شیرازہءمشرق

مغرب کی یہ تشکیل حکیمانہ نہیں ہے


کیوں عازمِ صحرا ہے، یہ اندازِ جنوں آج

تقدیر میں تیری کوئی ویرانہ نہیں ہے


مستغنی شاہانِ جہاں ہوکے جہاں میں

یوں خوش کوئی با حالِ فقیرانہ نہیں ہے


دنیا تیری محتاج ہے، اس دست تہی پر

محدود تری شان کریمانہ نہیں ہے


کیا تیری حکومت نہیں امواج ہوا پر؟

قبضہ ترا دریا پہ دلیرانہ نہیں ہے


حاصل تجھے کیف مئے توحید ہے اب بھی

لبریز تری عمر کا پیمانہ نہیں ہے


مغرب کی نظر میں ہے جو ایوانِ تمدّن

معراجِ تخیّل ہے وہ کاشانہ نہیں ہے


ہاں، ہاں، وہ ترا قول ہے تقلید کے قابل

جو حاملِ جذبات *سفیہانہ نہیں ہے


جلتا ہے تو جلنے دے، وہ ہے خرمنِ باطل

قسمت کا تری اس میں کوئی دانہ نہیں ہے


تیری ہی وہ دولت ہے، وہ تیری ہی امانت

جس شے پہ نظر تیری حریصانہ نہیں ہے


کتنا ہے موءثر وہ ترا جذبہء قومی

جمہورکی طاقت سے جو بیگانہ نہیں ہے


جمعیت خاطرتری دنیائےعمل میں

کب گیسوئے فطرت کے لیے شانہ نہیں ہے


دنیا کی رعونت ترے اس فقر پہ صدقے

کب زیرِ قدم سطوتِ شاہانہ نہیں ہے


تو ڈال بنا عالم بالا کی فضا میں

اس سطح پہ قائم کوئی کاشانہ نہیں ہے


کیوں تجکو ہے آتشکدہء غرب کا خدشہ

کیا مشعل توحید کا پروانہ نہیں ہے


کیا چیز ترے سامنے ہے طاقتِ ہٹلر

سر اپنا جھُکادے گا مسولینی خودسر


آسان اردو-جستجو میڈیا

سفیہانہ -عربی – صفت – کمینہ، احمق، نادان

عرض ایڈیٹر / پبلشر ... The Poetic Chronicles of Musavvir

محترم جناب مولانا محمد ابوبکر مصور مرحوم کے کلام کا ایک بڑا حصّہ قومی، سیاسی اور دینی افکارسے بھرپور ہے۔ مندرجہ بالا نظم اور اس جیسا دیگر کلام جو آپ اس ملٹی میڈیا ویب کتاب میں پڑھ رہے ہیں اسے  تاریخی شاعری کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ عمومی طور پر ایسی نظموں میں قارئین کے لیے براہ راست پیغام موجود ہے، جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق ہے۔ مثلاّ 1937کے اس دور میں جاپانیوں نے چین پر حملہ کرکے اس کے کئی بڑے شہروں پر قبضہ کرلیا تھا، اور یورپ میں اٹلی اور اسپین کے درمیان ایک خانہ جنگی جاری تھی۔ دوسری جانب جرمنی میں ہٹلر، اور اٹلی میں مسولینی ایک نئی قوم پرستی کا الائو جلارہے تھے، جس نے بعد میں دنیا کو دوسری جنگ عظیم کی لپیٹ میں لے لیا۔ جب کہ امریکہ ایک پرامن دور میں جی رہا تھا، اور جدید سائنسی پیش قدمیاں جاری تھیں۔ لگ بھگ اسی دور میں برطانیہ میں چرچل ہٹلر کے خطرہ کے بارے میں واویلا مچا رہا تھا، اور دوسری جانب بنیاد پرست یہودیوں کی صیہونی تحریک کی مدد کررہا تھا۔

ترکی کی خلافت کے تصور کو برصغیر کے مسلمان حرز جاں بنائے ہوئے تھے، جب کہ سلطان مہمت کی سلطنت غروب ہوکر مصطفیٰ کمال اتاترک کے ہاتھوں میں جاکر، 625 برسوں سے حکومت کرنے والا شاہی خاندان دربدرہوچکا تھا۔ اس دوران مولانا محمد ابوبکر مصور کے آبائی شہر بمبئی ہی میں 1919 میں تحریک خلافت کی بنیاد ڈالی گئی، جو کہ بین الاقوامی سطح پر ناکام رہی۔



ترکی سلطان مہمت سادس، مسلمانوں کے سوویں اور آخری خلیفہ 

 بد قسمتی سے برطانوی راج کی وجہ سے برصغیر میں سائنسی ترقِّی کے بجائے مقامی کشمکشیں اور سیاسی جھگڑے، اور برطانوی لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی کا شکار عوام بے بسی سے جی رہے تھے۔ ہندو مسلم کشمکش اپنے عروج پر تھی، اور انڈین کانگریس ایک طاقتور ترین کردار کے طور پر ابھر چکی تھی۔ گجراتی دیانند سراسواتی کی شدھی تحریک بھی برصغیر میں خاصی اتھل پتھل کرچکی تھی۔  بہر حال چند رہنما اور ادیب و شعراء اس وقت مستقبل کی پیش بینی کرتے اور عوام کو جگاتے نظر 


آتے تھے، جیسے کہ علامہ اقبال، قائد اعظم، گاندھی، جوش ملیح آبادی (شاعر انقلاب) وغیرہ۔ معلومات کے ذرائع محدود تھے، اور ریڈیو ہی ایک بڑا ذریعہ تھا۔ اخبارات کی خبریں بھی برصغیر کے کونہ کونہ تک نہیں پہنچ سکتی تھیں، اور نہ ہی اس وقت تعلیم کا عوامی چلن زیادہ تھا، جیسا کہ آج برصغیر میں ہے۔ اس پس منظر میں مولانا مصور کی اس قسم کی شاعری کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔  



No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click: More Justuju Projects