'30 June 1941' |
مصدرِ نکات
|
محال کا مقام ہے، محلِ ممکنات ہے اگرچہ کرّۂ زمیں اسیرِ شش جہات ہے |
تری نظر کا مُنتہا تلاطم حیات ہے نہاں اس کے پیچ و خم میں ساحلِ نجات ہے |
اسی کی روشنی میں جلوہ مشاہدات ہے فقط مرا ضمیر ہی نظرِ کائنات ہے |
نظر جو ماورائے عالم تعَیُّنات ہے نیاز مند ہوکے بے نیاز شش جہات ہے |
وہ آنکھ آنکھ ہے، جو ناظرِ صفات و ذات ہے وہ قلب قلب ہے، جو مرکزِ تحیّرات ہے |
خدا کی دین کے سوا خرد سے اپنی ماورا تجھے کس امر پر یہاں تفاخر حیات ہے |
کلام پاک کو لگا کے آنکھ سے نظر بڑھا کہ جس کا لفظ لفظ آج مصدرِ نکات ہے |
رواں ہے نبضِ عصر میں لہو جب اجتہاد کا تو ساکن آج کس لیے رگِ تصرفّات ہے |
امین دین کو احترام واجب الوپ کا نگاہِ کفر میں تقابل صفات و ذات ہے |
زبانِ حال کہہ رہی ہے واقعات *ماسبق کمالِ سومنات ہی، زوالِ سومنات ہے |
مُصوّرؔ رہینِ علو ہومناظر حسیں نثار مری نگاہِ شوق حاصلِ تصوّرات ہے |
|
آسان اردو – جستجو میڈیا اَلُوپ- پوشیدہ، غائب، مجازاً خالقِ دنیا ما سبق – ماضی، جو گزرچکا – *
|
تاریخی شاعری میں خوش آمدید
Wednesday, April 22, 2009
مصدرِ نکات
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment